مالی مشکلات: میں نے اپنی پسند پر شادی کرلی۔ خوشیاں بھی ملیں لیکن مالی مشکلات نے نہ چھوڑا، اب ایک بیٹی ہے اس کو اچھی تعلیم دلوانے کے خواب دیکھتی ہوں اور ڈر جاتی ہوں کہ کہیں اس کی زندگی بھی میری طرح والدین کو ناراض کرکے نہ گزرے، یہ اکیلی نہ رہ جائے۔ اس کے مستقبل کے اندیشے میرے آج کا سکون چھین رہے ہیں، کتنی ہی دیر خاموش بیٹھی ارد گرد گم ہوجاتی ہوں، بچی روتے روتے کندھاہلاتی ہے تو چونک کر اسے گود میں لے لیتی ہوں۔ عجیب قسم کا خوف مجھے گھیرے رکھتا ہے۔ (آسیہ۔نارووال)
جواب: اکثر لوگ مستقبل کے حوالے سے خوف کا شکار ہوتے ہیں لیکن ان کو معلوم نہیں ہوتا کہ اس طرح وہ آج کی خوشیوں یا سکون سے محروم ہورہے ہیں، آپ کو اس بات کا احساس ہے لہٰذا اپنی اس کیفیت سے نجات حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ ارد گرد سے گم ہوجانا، خاموشی اور بچی سے بے خبری ذہنی صحت کیلئے بھی ٹھیک نہیں۔ مستقبل کے حوالے سے کسی کو کچھ معلوم نہیں ہوتا۔ بہت سی پریشانیاں وقت کے ساتھ ختم ہوجاتی ہیں۔ جو لوگ آج میں زندہ رہتے ہیں اور آج محنت کرتے ہیں، علم حاصل کرکے خود کو کسی لائق بناتے ہیں ان کا آنے والا کل بھی اچھا ہوجاتا ہے۔
سازشوں کا احساس : میرے شوہر نے دس سال اچھی ملازمت کی، پتہ ہی نہیں چلا کہ کس طرح اخراجات پورے ہوتے رہے، گزشتہ ایک سال سے ان کی طبیعت خراب رہنے لگی۔ سب سے زیادہ مسئلہ میرے ساتھ ہی کیا، مجھ پر شک کرتے ہیں کسی سے بات نہیں کرنے دیتے، خاص طور پر ٹیلیفون نہیں کرسکتی۔ ڈرتے ہیں کہ میرے خلاف لوگ سازشیں کررہے ہیں، مجھے مروانا چاہتے ہیں، میں خود نفسیاتی مریضہ بننے لگی ہوں، ملنے جلنے والے کہتے ہیں کہ ان کے ساتھ نفسیاتی مسئلہ ہوگیا ہے۔ مگر انہوں نے ساری عمر ذمہ داریاں نبھاتے گزاری۔ یہ اچانک اتنی جلدی سب کچھ کیسے ہوگیا۔ میں نے دیکھا اگر کسی کے ساتھ دماغ کا کوئی مسئلہ ہوتا ہے تو وہ لوگ شروع ہی سے عجیب ہوتے ہیں۔ (شازیہ‘ بلجیم)
جواب: ہر ذہنی و نفسیاتی مریض پیدائشی طور پر عام لوگوں سے مختلف نہیں ہوتا۔ ان میں زیادہ تر وہ لوگ ہوتے ہیں جن کی ذہنی نشوونما صحیح نہیں ہوتی۔ اس لئے وہ کسی نہ کسی حد تک مریض ہی رہتے ہیں لیکن وہ لوگ جو معمول کے مطابق زندگی گزارتے آئے ہوں کسی ذہنی بیماری کے لاحق ہوجانے سے اپنے اور اہل خانہ کیلئے مسئلہ بن جاتے ہیں۔ شک شبہ، برا گمان، وہم بے سکونی، بے چینی، بے خوابی اور بیروزگاری یہ ظاہر کرتی ہے کہ آپ کے شوہر ذہنی طور پر ٹھیک نہیں ہیں۔
کوئی سننے والا ہو: میرا دل چاہتا ہے جو چاہے بولوں بلکہ بولتا رہوں۔ کوئی سننے والا ہوجو سنجیدگی سے میری باتیں سنے، بعد میں مذاق نہ اڑائے اور نہ کسی سے کہے۔ اسی طرح میرا دل ہلکا ہوگا، بڑا بوجھ ہے دماغ پر اور بہت سے لوگوں کی طرح میں نے بھی محبت کی مگر خاموش رہا۔ کچھ بن جائوں پھر اظہار کروں لیکن اچھی لڑکیاں کہاں انتظار کرپاتی ہیں۔ اتنی جلدی اس لڑکی کی شادی ہوئی اور اب وہ باہر ہے، پتہ چلتا رہتا ہے وہ خوش نہیں۔ تنہائی سے پریشان ہے۔ اس کا شوہر بدمزاج ہے۔ ایسی دولت کا کوئی کیا کرے۔ جب دل ہی خوش نہ ہو۔ شاید صورتحال کچھ اور ہوتی، اگر اس کی مجھ سے شادی ہوجاتی، کس کو بتائوں یہ بات اور بہت سی باتیں، بہت سے مسائل، ناکام تمنائیں، ادھوری خواہشیں، آرزوئیں، حسرتیں اور کھلی آنکھوں دیکھے جانے والے خواب۔ (عرفان‘ اچھرہ لاہور)
جواب: عام طور پر سننے والے اتنے بردبار اور راز رکھنے والے نہیں ہوتے کہ کسی کی باتوں کو سنجیدہ لیں۔ دوسروں کے رازوں کی حفاظت کریں۔ یہی وجہ ہے کہ بات کہہ دینے سے پرائی ہوتی ہے۔ دل کا بوجھ ہلکا کرنے کے اور بھی طریقے ہیں، ان میں اچھا طریقہ لکھنا ہے۔ سادہ کاغذوں پر نمبر ڈال کر اپنے مسائل لکھتے جائیں، بعد میں ایک ایک بات پڑھیں اوراس کا جواب لکھیں یا ذہن میں سوچ لیں۔ ہر جملے کے ساتھ اطمینان محسوس کریں۔ بعض اوقات دل زیادہ پریشان ہوتا ہے، ایسی صورت میں جو طبیعت میں آئے، غم غصہ، خواہش، خواب، آرزوئیں سب لکھتے جائیں۔ اپنے راز کی حفاظت کیلئے جو کچھ لکھا ہے اس کو مٹا دیں یا کاغذوں کو پھاڑدیں۔ ذہنی بوجھ ہلکا محسوس ہوگا۔ جس لڑکی سے محبت کی اس کے بارے میں اچھا نہ سننے کی لاشعوری خواہش بھی ہے۔ اس پر قابو پائیں اور اس کی زندگی کے حوالے سے کچھ بھی نہ سوچیں۔ وہ قسمت میں نہ تھی اس جیسی کسی اور لڑکی سے شادی ہوسکتی ہے۔
نصیحت کے اثرات: عموماً ہم سب گھر والے شام کے کھانے پر ساتھ ہوتے ہیں، اسی دوران بچوں سے گفتگو ہوتی ہے، کوئی غلط بات معلوم ہوتی ہے تو وہ بھی زیر بحث آتی ہے۔ بڑا بیٹا کافی حساس واقع ہوا ہے، وہ چاہتا ہے اس کے حوالے سے کوئی بھی ذکر گھر والوں کے سامنے بھی نہ کیا جائے۔ جیسے ہی ہم اس کی طرف بات کرنے کیلئے دیکھتے ہیں وہ اٹھ کر چلا جاتا ہے اور بعد میں بھی کھانا نہیں کھاتا جبکہ دوسرے بیٹے کو جو بھی نصیحت کریں وہ سنتا ہے اور برا نہیں مانتا۔ مجھے لگتا ہے بڑے کے ساتھ ضرور کوئی ایسی بات ہے جسے وہ چھپانا چاہتا ہے۔ اب اس نے رات کو دیر سے گھر آنا شروع کردیا ہے۔ یہ بات میرے لئے اور زیادہ پریشانی کی ہے۔ (ایم‘گوجرانوالہ)
جواب: ہر بچے پر نصیحت کے اثرات مختلف ہوتے ہیں، آپ ماں ہیں‘ بیٹے کے احساسات اور عادت سے واقف ہوں گی۔ بچے جب بڑے ہوجائیں تو ان کے ساتھ نرمی، خلوص اور ہمدردی سے پیش آنا ضروری ہوتا ہے، انہیں احساس دلانا ہوتا ہے کہ والدین ان پر بہت زیادہ اعتماد کرتے ہیں۔ خاص طور پر کھانے کے وقت کسی ناخوشگوار بحث و تکرار میں الجھنے سے گریز ضروری ہے، ورنہ بچے کھائے پئے بغیر اٹھ کر جا سکتے ہیں۔ اس موقع پر سب گھر والے خوشگوار اور پرلطف ماحول میں کھانا کھائیں۔ کوئی اہم مسئلہ ہوتو بچوں کو اپنے کمرے میں بلاکر یا ان کے کمر ےمیں جاکر بات کریں۔ مختصر الفاظ کی نصیحت زیادہ اثر رکھتی ہے۔
سسرال کی سیاست:16 سال کی عمر میں میری شادی ہوگئی۔ دنیا کے بارے میں کچھ معلوم نہ تھا، سسرال میں عجیب قسم کی سیاست تھی، میری سمجھ میں کچھ نہ آیا، ایک بیٹی بھی ہوگئی، ساس اس کو اپنے پاس رکھتی ہیں، پھر بیٹا ہوگیا، اس کو میں نے ہی سنبھالا۔ مجھے ڈر لگتا ہے بیٹی مجھے برا نہ سمجھے، کیونکہ وہ میری کوئی بات نہیں سنتی۔ اس کی عمر 3 سال ہے، میں ڈانٹوں تو مجھے مارتی ہے، غصہ آتا ہے لیکن برداشت کرلیتی ہوں۔ اس کو گھر کے دوسرے لوگ بگاڑ رہے ہیں اور میرے شوہر کا کہنا ہے کہ میں چپ رہوں، ورنہ تعلقات خراب ہوں گے۔ وہ ایک، ایک ماہ دوسرے شہر میں رہتے ہیں اس دوران میں دو بچوں کے ساتھ یہاں رہنے پر مجبور ہوں۔ (ع۔مردان)
جواب: مزاج میں بردباری اور روئیے میں پختگی پیدا کرنے کیلئے ضروری ہے ۔ اس وقت آپ پر دو بچوں کی پرورش اور تربیت کی ذمہ داری ہے، شوہر بھی اس ذمہ داری کی تکمیل میں پوری طرح ساتھ نہیں دے سکتے کیونکہ ان کو لمبے عرصے کیلئے گھر سے دور رہنا ہوتا ہے۔ 3 سال کی بچی غصے سے آپ کے پاس نہ آئے گی۔ ضروری ہے کہ اس سے محبت سے پیش آیا جائے۔ اس کیلئے کھانے پینے کی چیزیں لاکر رکھیں۔ اسے اپنے چھوٹے بھائی سے محبت کرنا سکھائیں، کچھ عرصہ میں وہ سکول جانا شروع کردے گی، آپ سکول کے حوالے سے اس کا خیال رکھئے گا مثلاً ہوم ورک وغیرہ کروانا۔
اچھے کام پر انعام دینا، سب کے سامنے تعریف کرنا، ماں کی محبت کو بچے محسوس کئے بغیر نہیں رہ سکتے۔
کپکپاتا دل
سوال: میری عمر 30 سال ہوگئی ہے، 20 سال کی عمر میں کزن سے منگنی ہوئی جو چھ ماہ میں ختم ہوگئی۔ پتہ ہی نہیں چلا دس سال کس طرح گزر گئے، صرف اتنا احساس ہے کہ لوگ مجھے دیکھنے آتے رہے اور میں کپکپاتا ہوا دل لے کر ان کے سامنے جاتی رہی، اب لوگوں نے آنا کم کردیا ہے لیکن میرے دل کا لرزنا بڑھ گیا۔ کبھی تو لگتا ہے مجھے دل کی بیماری ہے ، ایک روز میرے کہنے پر ابو مجھے ہسپتال بھی لے گئے لیکن دل کی کوئی تکلیف ہی نہ تھی۔ پل بھر کو میں نے محسوس کیا ہسپتال میں صحیح معائنہ نہیں ہوا مگر یہ بات کہی نہیں کیونکہ سب ہی میری صحت کی طرف سے مطمئن تھے اور اب بھی ہیں جبکہ میں خود مطمئن نہیں۔ ساری ساری رات نیند نہیں آتی۔ (غزالہ شیخ۔ سیالکوٹ)
جواب: پرسکون نیند انسانی ذہن اور جسم کیلئے بے حد ضروری ہے، نیند پوری نہ ہوتو بغیر مشقت کئے انسان خود کو تھکا تھکا محسوس کرتا ہے بلکہ ایک قسم کا تنائو پیدا ہوجاتا ہے۔ نیند لانے کیلئے مثبت کوشش کیجئے، لمبی سیر کریں، ورزش بھی اچھی ہے، من پسند کھانا کھائیں لیکن سونے سے کئی گھنٹے پہلے۔ سونے سے پہلے اچھی کتابوں کا مطالعہ کرسکتی ہیں، یہ بھی خیال رکھیں کہ جن لوگوں کا دن اچھا گزرتا ہے ان کو رات میں اچھی نیند آتی ہے، جہاں تک دل لرزنے کی بات ہے تو یہ گھبراہٹ کے سبب ہورہا ہے، یہ خالصتاً نفسیاتی مسئلہ ہے تو یہ گھبراہٹ کے سبب ہورہا ہے۔ یہ خالصتاً نفسیاتی مسئلہ ہے۔ کوئی ملنے آئے تو مل لیا کریں، اس طرح جیسے کہ اور بہت سے لوگوں سے ملا جاتا ہے۔ ہوسکتا لاشعور میں یہ خوب ہوکہ جو لوگ آئے ہیں وہ ناپسند نہ کردیں۔ اب تک اگر شادی نہیں ہوئی تو کوئی نقصان نہیں ہوا۔ البتہ شادی ہوجاتی لوگ اچھے نہ ملتے تب پریشانی کی بات تھی۔ اچھے لوگ اچھی لڑکیوں کو پسند کرلیتے ہیں، جب تک شادی نہیں ہورہی خود کو جاب یا تعلیم میں مشغول رکھیں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں